حيدرآباد ادبي فيسٽيول کی یادیں
حيدرآباد میں یون تو ھر دوسرے ماہ دوسرے فیسٹیول میلے بوتے رھتے ہین مگر گذشتہ ھفتے حیدرآباد ادبی میلا سیزن 4 منعقد کیا گیا جو اپنی نوعیت خاص ایونٹ تھا، جس مین ایک بی وقت 48 سے زیادہ علمی ادبی سیشن رکھے گئے تھے جس مین مچ کچھری، ادبی نشتین، موسیقی کے پروگرام، اسٹیج ڈراے، کتابوں کی نمائش سے لیکر کتابوں کی مھورت اور بھی بھت کجھ رکھا گیا تھا، جس میں حیدر آباد سمیت پورے سنڈھ کے ادب دانشوروں نے شرکت کی مگر میرے لئے جو سب سے حوصلہ افزا بات یہ تھی اس ایونٹ میں ملک کی مانور اداکارہ حنادلپزیر (مومو)، محمد حنیف، وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر مبارک کے حیدرآباد آمد نے فیسٹیول کو 4 چانڈ لگا دیئے، مجھے جو سب سے زیادہ متاثرہ کیا وہ ڈاکٹر مبارک علی کے تاریخ اور عبدالطیف بھٹائی کے مطابق سیشن تھا، اس مین ڈاکٹر ممتاز بھٹو اور دیگر نے بھی بھت تاریخی گفتگو کی مگر ڈاکٹر مبارک کی گفتگو نے لوگ کے دل جیٹ لیے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مبارک نے کہا کہ تحقیق کے آخر میں سوال چھوڑنے سے یہ چیز پتا چلتی بے کہ اس پر مذید کام کرنے کی ضرورت ہے
محمد حنیف نے اپنے مخصوص انداز میں پاکستان کی ترقی کی بات بھی کی، جس میں انہون کئی کام والی باتین کی مگر ان کے گفتگو کرنے کا انداز واقع ئی نھایت دل کو چھونے والا تھا.
بی بی سی کے صفحات پر بڑی آزادی سے اپنے قلم کو چلانے والا وسعت اللہ خان اپنے زندگی اور گفتگو میں اتنے آزاد ھی جتان وہ اپنی تحریروں میں آزاد ہیں، جب ان سے پوچھا گیا تو انہون کھا کہ بی بی سی بھی صرف 90 فیصد آزاد بے اور دنیا کا کوئی ادارا سو فیصد اپنی پالیسی میں آزاد نہیں ھوسکتا کیونکہ بر اداری کی اپنی سرحدیں ہیں اور وہ ان سے بابر نکلنا نہیں چاھتا باقی ایڈیٹوریل کی حد میں وہ کافی حد تک آزاد ھے.
مجھے یاد ھے کہ ایونٹ کے تیسرے اور آخری دن وسعت اللہ خان صبح اکیلے اکیلے فیسٹیول میں لگے بوئے اسٹاز کو دیکھ رھے تھے اور پھر اپنے مقرر ٹائم پر رومی حال میں منعقد کئے گئے منچھر جھیل کے سیشن میں تشریف لائے.
منچھر جھیل پر انہوں جو ڈاکومنٹری بنائی ھے وہ یقین دیکھنے لائق ھے جس مین وہان رھنے والے لوگون کی رسومات، دکھ اور سکھ کو جس انداز سے بیان کیا گیا بے وہ یقینن ناقابل فراموش ہے. انہون نے کھا کہ ھم ایک مرثیہ گو قوم بن چکے ہین ھمیشہ ھمارے اوپر بابر سے آنے والی قوتوں نے حکمرانی کی بے اور ھم ماضی کے مرثیے گاتے رھتے ہین اور حالت یا شاندار ماضی کو بچانے کے لیے آواز نہین اتھاتے، وسعت اللہ خان نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی نہین ھے اور نئے ڈیم کی بات بوری ھے مگر جو ھمارے قدرتی ڈیم جھیلوں کی صورت میں بنے بوئے بیں ان کو بچانے کے لیے کوئی بات نہیں بوری.
اس دن علي بابا حال مين اپنے ایک اور سیشن میں اپنے خاص انداز میں وسعت اللہ خان نے بتایا کہ کس طرح ملک ایک اچھے ائیر مارشل سے محروم ہو گیا اور کس طرح وہ ایک اچھے بیوروکریٹ نہیں بن پائے.
انہوں کہا کہ تحریر لکھتے وقت آپ ایک اچھی رائیٹر بننے سے پہلے ایک اچھے پڑھنے والے بن جائو، جو موضوع آپ کو پڑھنے میں اچھا لگتا ھو اس پر لکھواس کی فرمائش پر نہ لکھو، فیسٹیول مین وسعت اللہ خان نے اپنے دوستوں رسول بخش پليجو اور حسن درس کو بھی یاد کیا، اس نے کہا کہ حسن درس ایک آزاد پنچھی تھا اور اپنی انداز میں دنیا کو دیکھنا چاھتا تھا اور رسول بخش پليجو کے لئے ان کا کہنا تھا کہ پلیجو صاحب اور میرا ایک بغیر لکھا معاھدا تھا کہ سیاست کے علاوہ ھر موضوع پر بات بوگی، جس معاھدے کی وجہ سے وسعت اللہ خان نے پلیجو کے پاس موجود علم و دانش کے انمول جواھرات چرائی جو شاید کوئی دیکھ بھی نہیں سکا.
انہوں نے کہا کہ آپ جو پسند ھے وہ لکھو، وسعت اللہ خان نے تحریر کیا کہ اگر آپ نے ایک ھفتہ کتابوں سے یا پڑھنے سے دور گئے تو سمجھو کہ لکھنے میں ایک ماہ پیچھے چلے گئے. ایک سوال کہ کیا آپ کو کسی ادارے یا بندے کے کھانے پر اپنی کوئی ادوری چھورنی پڑی ھے؟ اس سوال کا جواب خوف دیا کہ میں کبھی کسی کی دوم پر پائون نہیں رکھتا کیونکہ اس ٹائم ضائع ہوتا ہے، اس نے کسی فرد پر لکھنا بلکل آسان ہے اور یہ ادنا سا کام بے میں نے کبھی فرد پر نہین لکھا ھمیشہ سوچ، ذھینت پر لکھا چاھیے، ایک اچھا مصنف وہ بے جو ایک جملہ دس بار لکھے مگر پڑھنے والے کو نا تو پتا چلے کہ وہ ایک ھی بات کر ربا بے اور ناہی پڑھنے والے بور ھو، اس وجہ سے مجھے اپنی کوئی تحریر ادوری نہیں چھوڑنی پڑی.
حیدرآباد ادبی میلے جیسے پروگرام یقین تفریح، حسی مذاق، موسیقی کے ساتھ علم، ادب، تحقیق کی نئی راھین روشن کرتے ہین ایسے فیسٹیول بونے چاھیئن تہ کہ اپنے معاشرے میں علم کی شما روشن ھو اور جنون کو اپنے معاشرے سے نکال سکے.




تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں